
ایک ایسے وقت میں جب انڈیا میں سماجی انصاف کی جگہ شدید ناانصافی تھی اور کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں تھا۔ اس دوران کچھ اولیا تھے جنھوں نے غریبوں اور مصیبت زدہ لوگوں کی فریادیں سنیں۔ ان کی طرح وہ بھی غربت میں رہتے اور کئی کئی دن بھوکے رہ کر معاشی تفاوت کو دور کرنے کی کوشش کرتے۔’
یہ الفاظ مشہور مصنف اور مورخ راہل سنکرتیان کے ہیں۔ راہل سنکرتیان نے مغل حکمراں اکبر اور ان کے دور پر لکھی اپنی مشہور کتاب ‘اکبر’ میں کچھ صوفی بزرگوں کو سماجی برابری دلانے والا یا کمیونسٹ کہا ہے جن میں صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی اولیت رکھتے ہیں۔
معین الدین چشتی ایران کے سنجر (سیستان) میں پیدا ہوئے۔ وہ واحد مسلمان بزرگ ہیں جن کی شہرت برصغیر پاک و ہند میں مذاہب یا فرقوں کی تنگ نظری کی سرحدوں کو عبور کرتی ہوئی پنچی۔
اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ برصغیر پاک و ہند میں سب سے زیادہ قابل احترام درگاہوں میں سے ایک ہے۔
لیکن ان دنوں وہ کچھ مختلف وجوہات سے خبروں میں ہے۔ یہ ایک ایسی مقدس درگاہ ہے، جہاں خواتین بغیر کسی پابندی کے داخل ہوتی ہیں۔ غیر مسلم خواتین بھی بڑی تعداد میں پہنچتی ہیں اور منتیں مانگتی ہیں