بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (VBMP) کی جانب سے جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ آج 5675 ویں روز بھی جاری رہا۔ اس کیمپ میں بلوچ قوم کے غمزدہ خاندانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے شرکت کی اور جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ اس موقع پر بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے کارکنوں نے بھی آ کر لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے احتجاجی کیمپ میں ایک وفد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “ہر دن اور ہر مہینہ محکوم قوم کے لیے ایک جیسا ہوتا ہے، ہر روز لاشوں کا ملنا، کسی گھر کے چراغ کا بجھ جانا اب معمول بن چکا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے مظالم کا سلسلہ مسلسل جاری ہے، اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ سیاسی کارکنوں کو ریاستی ڈیتھ اسکواڈز کی طرف سے نشانہ بنایا جائے۔
ماما قدیر بلوچ نے اپنے خطاب میں بتایا کہ “انسانیت سوز مظالم، نسل کشی، فوجی کارروائیاں، جبری اغوا، ماورائے عدالت قتل عام اور سامراجیت کا تسلسل بلوچستان میں جاری ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ یہ سب اقدامات حکومت اور ریاست کے ذریعے بلوچ قوم کی آزادی کو دبانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ “آئین، قانون، پارلیمنٹ، اور ریاستی بندوبست جیسے مصنوعی اور خود ساختہ رنگین ڈھانچوں کو قائم رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ سامراجی سوچ کو پروان چڑھایا جا سکے۔”
ماما قدیر بلوچ نے اس بات پر زور دیا کہ بلوچ قوم کے خلاف ریاستی ظلم اور تشدد کی کارروائیاں دن بدن شدت اختیار کر رہی ہیں۔ “فوجی کارروائیاں، بے نام چھاپے، ہدف بنا کر قتل کرنا، جبری اغوا اور مسخ شدہ لاشوں کا پھینکنا ایک معمول بن چکا ہے۔” انہوں نے کہا کہ اس تمام صورتحال کے باوجود دنیا بھر کے اہل قلم، صحافت اور انسان دوست حلقوں میں بلوچ قومی ایشو پر لکھا جا رہا ہے، اور اس کے اثرات عالمی سطح پر پھیل رہے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے پاکستان کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے حکام نے ہمیشہ کی طرح بلوچ عوام کے حقوق کی خلاف ورزی کی ہے اور اس بار بھی تاریخ نے خود کو دہرایا ہے۔ تاہم، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ “مظلوموں کی جدوجہد اور قربانیاں کبھی ضائع نہیں جاتی، اور وہ دن دور نہیں جب سامراجیت کو نیست و نابود کر دیا جائے گا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں بلوچ قوم کے لیے سرزمین پر اپنی جان و مال کی حفاظت اب ممکن نہیں رہی۔ “اگر ہم اپنے وطن میں محفوظ نہیں ہیں، تو ہم کس سے اپنی آزادی کا مطالبہ کریں؟” ماما قدیر بلوچ کے ان بیانات نے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے اہم سوالات اٹھا دیے ہیں۔
یہ احتجاجی کیمپ ایک اہم علامت بن چکا ہے جس میں نہ صرف بلوچ قوم کے مسائل کو اجاگر کیا جا رہا ہے بلکہ دنیا کو بھی یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ جبری گمشدگیوں، قتل و غارت اور ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جدوجہد اور قربانیاں بلوچ قوم کے حقوق کی بازیابی کے لیے جاری ہیں اور عالمی برادری سے اس ظلم کے خاتمے کی امیدیں وابستہ ہیں۔