چین نے تبت میں دنیا کا پہلا سپر ڈیم تعمیر کرنے کا اعلان کردیا

چین نے دنیا کے سب سے بڑے اور پہلے سپر ڈیم کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے، جو اپنی بے مثال ہائیڈرو پاور صلاحیت کے ساتھ توانائی کے شعبے میں ایک نیا سنگ میل ثابت ہوگا۔ یہ سپر ڈیم تبت میں دریائے یارلنگ سانگبو پر تعمیر کیا جائے گا، جو دنیا کے سب سے گہرے آبی درے سے گزرتا ہے۔ اس منصوبے پر تقریباً 137 ارب ڈالرز کی لاگت آئے گی، جو اسے دنیا کا سب سے مہنگا تعمیراتی منصوبہ یا انفرا اسٹرکچر پراجیکٹ بنائے گا۔ اس ڈیم سے سالانہ 300 ارب کلو واٹ گھنٹے بجلی پیدا ہونے کی توقع ہے، جو موجودہ دنیا کے سب سے بڑے ڈیم تھری گورجز ڈیم کی سالانہ 88.2 ارب کلو واٹ گھنٹے پیداوار سے تین گنا زیادہ ہے۔ اس توانائی سے 30 کروڑ سے زائد افراد کی سالانہ ضروریات پوری کی جا سکیں گی۔

دریائے یارلنگ سانگبو سطح مرتفع تبت کے بلند پہاڑی اور دشوار گزار علاقے سے گزرتا ہے اور بھارت میں برہما پترا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ بھارتی ریاستوں اروناچل پردیش اور آسام سے گزرتا ہوا بنگلہ دیش پہنچتا ہے، جہاں یہ خلیج بنگال میں جا گرتا ہے۔ چین اس ڈیم کو اس مقام پر تعمیر کرے گا جہاں بارش کی شرح انتہائی زیادہ ہے، جو پانی کی مسلسل دستیابی کو یقینی بنائے گی۔ اس منصوبے کے لیے دریا کے بہاؤ کا 50 فیصد رخ موڑنے کے لیے 20 کلومیٹر طویل سرنگیں بنائی جائیں گی، جس میں جدید ترین ٹیکنالوجی اور گہرائی پر مبنی ارضیاتی تحقیق استعمال کی جائے گی تاکہ منصوبہ محفوظ اور مستحکم ہو۔

یہ منصوبہ 2021 میں چینی حکومت کے پانچ سالہ منصوبے کے دوران متعارف کرایا گیا تھا اور اب اس کی تعمیر کی منظوری دی گئی ہے۔ چین کا مقصد اس ڈیم کے ذریعے توانائی کی ضروریات پوری کرنا اور ماحولیاتی طور پر صاف توانائی میں خود کفالت حاصل کرنا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ منصوبہ چین کی معیشت کو توانائی کے بحران سے نکالنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

چین، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان اس دریا کے پانی کی تقسیم کے حوالے سے کوئی معاہدہ موجود نہیں، جیسا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدہ ہے۔ بھارت نے اس منصوبے پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے، کیونکہ یہ دریائی بہاؤ اور خطے کی زراعت پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ تاہم، چین نے یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ منصوبہ ماحولیاتی معیارات اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق مکمل کیا جائے گا۔

یہ سپر ڈیم چین کی صاف توانائی کے شعبے میں اہم پیش رفت کی نمائندگی کرتا ہے اور دنیا کے دیگر ممالک کے لیے ایک نیا معیار قائم کرے گا۔ یہ منصوبہ چین کی عالمی توانائی کے نقشے پر برتری کو ظاہر کرتا ہے اور توانائی کے تحفظ اور ماحولیاتی توازن کے درمیان ایک نئے دور کی شروعات کا اشارہ دیتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، اگرچہ یہ منصوبہ تکنیکی اور ماحولیاتی چیلنجز سے بھرپور ہے، لیکن اس کی کامیابی سے نہ صرف چین بلکہ خطے کی توانائی کی ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *