بلوچستان: غذائیت کی کمی کے شکار بچوں کی تعداد میں اضافہ

بلوچستان میں غذائی قلت کے مسئلے نے پورے صوبے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اور نیوٹریشن سروے کے مطابق بلوچستان کے تمام 36 اضلاع میں بچوں کو غذائیت کی کمی کا سامنا ہے، جس کے نتیجے میں 49.6 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف بچوں کی صحت کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہے بلکہ ان کی مجموعی نشوونما اور جسمانی قوت مدافعت کو بھی متاثر کر رہی ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق غذائیت کی کمی کے شکار بچوں کی نشوونما پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ نہ صرف جسمانی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں بلکہ مختلف بیماریوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ ان بچوں کی قوت مدافعت کمزور ہو جاتی ہے، اور وہ معمولی انفیکشنز تک کا سامنا نہیں کر پاتے۔ خاص طور پر، خسرہ جیسی بیماری ان بچوں کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ ان کا جسم بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب قوت مدافعت فراہم کرنے میں ناکام رہتا ہے۔

اس کے علاوہ، غذائی کمی کی وجہ سے ان بچوں کی جسمانی نشوونما باقی بچوں کی نسبت بہت کم ہوتی ہے اور ان کا وزن بھی کم ہوتا ہے، جس کے لیے انہیں خاص پروٹوکول دینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کی حالت میں بہتری لائی جا سکے۔

بلوچستان میں 2018 سے نیوٹریشن ایمرجنسی نافذ ہے، لیکن فنڈز کی عدم فراہمی کے باعث محکمہ صحت اور نیوٹریشن ڈائریکٹریٹ غذائی قلت کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ اس صورتحال میں گرانٹس کی عدم فراہمی اور مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے صوبے میں غذائی قلت پر قابو پانے کے لیے درکار اقدامات تاخیر کا شکار ہیں۔

بلوچستان میں غذائی قلت کی وجوہات میں غربت، ماں کا دودھ نہ پلانے کا رجحان، قدرتی آفات جیسے سیلاب اور خشک سالی، اور غذائی اجناس کی کمی شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غربت کی وجہ سے خاندانوں کے پاس غذائی ضروریات پوری کرنے کے وسائل کم ہیں، اور ماں کا دودھ نہ پلانے کے باعث بچوں کو ضروری غذائیت نہیں ملتی۔ قدرتی آفات جیسے سیلاب اور خشک سالی بھی اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں کیونکہ یہ قدرتی آفات زرعی پیداوار کو متاثر کرتی ہیں، جس سے غذائی قلت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔

عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو صرف اعلانات کرنے کی بجائے اس مسئلے پر ٹھوس عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ غذائی قلت کے مسئلے کے حل کے لیے نہ صرف مالی وسائل کی فراہمی ضروری ہے، بلکہ حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ غذائی امداد اور صحت کی سہولتیں ان علاقوں تک پہنچیں جہاں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، معاشرتی سطح پر بھی عوامی آگاہی بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ والدین کو بچوں کو بہتر غذائیت فراہم کرنے کی اہمیت کا اندازہ ہو سکے۔

بلوچستان کے اس سنگین غذائی بحران کے حل کے لیے صوبے کی حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کو مشترکہ طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والے سالوں میں بلوچستان کے بچوں کو غذائیت کے اعتبار سے بہتر زندگی فراہم کی جا سکے اور ان کی صحت کی صورتحال میں بہتری لائی جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *