قیصر اپنے دادا کی وفات پر تقریباً پانچ ماہ پہلے گھر آیا تھا اور اس نے بتایا تھا کہ حالات ٹھیک ہیں۔ وہاں دھمکیاں ملتی رہتی ہیں لیکن عموماً مشینوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ لوگوں کو خطرہ نہیں۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہاں فوج کی سکیورٹی ہے، ہمیں لگا کہ فوج کا تحفظ ہو گا تو خطرہ نہیں ہوگا۔‘
یہ سب کہتے ہوئے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہری راجہ اعجاز آبدیدہ ہو گئے جو دو دن قبل اپنے بیٹے قیصر کو دفن کر کے آئے تو نماز جنازہ پر ان کی فریاد کرتی ویڈیو کشمیر میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔
راجہ قیصر ان تین کشمیری مزدوروں میں سے ایک تھے جنھیں اکتوبر میں بلوچستان میں شدت پسندوں کے ایک حملے کے بعد اغوا کر لیا گیا تھا اور اب ان کی لاش گذشتہ ہفتے کوئٹہ کے ایک ہسپتال سے ملی۔
کوئٹہ میں ایک سینیئر سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ راجہ قیصر کی لاش چار پانچ روز قبل ضلع قلات کے علاقے منگیچر سے لائی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ راجہ قیصر کے جسم پر پانچ گولیوں کے نشان تھے جن میں سے تین ان کے سینے جبکہ دو پیٹ پر لگی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مقتول کی لاش دو روز تک سول ہسپتال کوئٹہ کے مردہ خانے میں پڑی رہی۔
اہلکار نے بتایا کہ اسد قیصر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تھا۔ شناخت کے بعد ان کی لاش کو ان کے آبائی علاقے منتقل کرنے کے لیے حوالے کیا گیا۔
منگیچر انتظامی لحاظ سے ضلع قلات کی تحصیل ہے۔ اس سلسلے میں جب ضلع قلات کے ڈپٹی کمشنر بلال شبیر سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کشیمری نوجوان کی گولیاں لگی لاش کی برآمدگی کی تصدیق کی اور نامہ نگار محمد کاظم کو بتایا کہ یہ کیس اب سی ٹی ڈی یعنی کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں تحقیقات کے حوالے سے جو پیشرفت ہوئی، وہ سی ٹی ڈی والے بتا سکتے ہیں تاہم سی ٹی ڈی کے حکام سے بارہا رابطہ کیے جانے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
قلات میں لیویز فورس کے ایک سینیئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ یہاں لاش کی شناخت نہیں ہو سکی تھی جس پر لاش کو شناخت اور پوسٹ مارٹم کے لیے سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا گیا تھا جہاں شناخت ہوئی۔
راجہ قیصر کی لاش منگیچر کے علاقے میں کوہک کراس کے قریب سے ملی تھی۔
لیویز فورس کے سینیئر اہلکار نے کہا کہ راجہ قیصر کو کچھ عرصہ قبل نامعلوم افراد نے منگیچر کے قریب کوئٹہ کراچی شاہراہ پر کام کرنے والی ایک کمپنی کے کیمپ پر حملے کے بعد اغوا کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حملے میں کمپنی کی مشینری کو بھی نقصان پہنچایا گیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ اس حملے کے بعد تعمیراتی کمپنی کے کیمپ میں موجود متعدد لوگوں کو حملہ آور لے گئے تھے تاہم ان میں سے زیادہ تر کو بعد میں چھوڑ دیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ واقعہ سنگین دہشت گردی کا واقعہ ہے اس لیے اس کی تحقیقات کا معاملہ سی ٹی ڈی کے پاس ہے۔