گوادر: کاروبار پر بندش کے خلاف احتجاج جاری

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں آل پارٹیز الائنس کے زیر قیادت جاری احتجاجی دھرنے نے آٹھویں روز بھی زور پکڑ رکھا ہے۔ مظاہرین میرین ڈرائیو پر موجود ہیں، جہاں انہوں نے اپنی بنیادی مطالبات کے حق میں مظاہرے جاری رکھے ہیں۔ ان کے احتجاج کا مرکز ایران کے ساتھ سرحد کو دوبارہ کھولنے، ٹوکن سسٹم کے خاتمے، اور مقامی آبادی کو بنیادی سہولیات کی فراہمی جیسے مسائل ہیں۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ تجارت کی بندش نے نہ صرف مقامی معیشت کو متاثر کیا ہے بلکہ خطے میں بے روزگاری میں بھی شدید اضافہ کیا ہے۔ وہ اس بندش کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ علاقے کے رہائشیوں کو دوبارہ روزگار کے مواقع مل سکیں۔ ان کے مطابق، تیل اور دیگر ضروری اشیاء کی تجارت کے لیے ایران کے ساتھ سرحد بند ہونے سے لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔

کنٹانی ہور بارڈر پر متعارف کرائے گئے ٹوکن سسٹم پر مظاہرین نے سخت اعتراض کیا ہے۔ ان کے بقول، یہ نظام تجارت میں غیر ضروری رکاوٹ پیدا کر رہا ہے اور لوگوں کے لیے زندگی مزید دشوار بنا رہا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس سسٹم نے نہ صرف تجارتی سرگرمیوں کو متاثر کیا بلکہ خطے میں غربت اور بے روزگاری میں بھی اضافہ کیا ہے۔

احتجاجی رہنماؤں نے گوادر میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی پر بھی شدید برہمی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بجلی کی عدم دستیابی اور پینے کے صاف پانی کی قلت نے مقامی آبادی کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔ رہنماؤں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ان مسائل کو فوری طور پر حل کرے۔

مظاہرین نے تلار چیک پوسٹ پر مقامی رہائشیوں کی گاڑیوں کو روکے جانے کے واقعات پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق، تیل کی تجارت کرنے والی گاڑیوں کو غیر ضروری طور پر روکنے کی وجہ سے لوگ کئی دنوں تک شاہراہوں پر پھنسے رہتے ہیں۔ اس قسم کی پابندیوں نے نہ صرف تجارتی سرگرمیوں کو محدود کر دیا ہے بلکہ خطے میں سماجی اور معاشی مسائل کو مزید بڑھا دیا ہے۔

احتجاجی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سرحدی تجارت پر پابندی اور بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی نے علاقے میں انسانی بحران کی صورت پیدا کر دی ہے۔ بہت سے افراد اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے کے لیے دیگر شہروں کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں، جبکہ جو لوگ ابھی تک گوادر میں مقیم ہیں، وہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔

مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر ایران کے ساتھ سرحد کو کھولے، ٹوکن سسٹم کو ختم کرے، اور گوادر کے عوام کو بجلی، پانی اور دیگر ضروری سہولیات فراہم کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ان مطالبات پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتی تو احتجاجی تحریک مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔

گوادر کے حالات اس وقت نہایت حساس ہیں، جہاں عوام اپنی بقا کے لیے حکومتی توجہ اور عملی اقدامات کے منتظر ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *