
کراچی کے ڈاؤ ہسپتال میں جینیاتی بیماریوں اور کزن میریجز پر ورکشاپ ہوئی، جس میں یورپ کے مختلف ممالک کے ماہرین نے بھی شرکت کی۔
ورکشاپ کے دوران یورپی ماہرین سمیت پاکستان میں کزن میریجز اور بچوں میں جینیاتی بیماریوں پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے اپنی تحقیقات بھی پیش کیں۔
ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر محمد سعید قریشی نے کہا کہ پاکستان میں کزن میریجز کی عام شرح 65 فیصد ہے جب کہ بعض قبائل میں یہ شرح 85 فیصد تک بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک ہی خاندان کے دو افراد میں شادیاں اگلی نسل میں مختلف جینیاتی بیماریاں بڑھانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
ورکشاپ میں کزن میریجز اور بچوں میں جینیاتی بیماریوں پر تحقیق کرنے والی آغا خان یونیورسٹی کی ڈاکٹر امبرین فاطمہ نے کہا کہ کزن میریجز کی وجہ سے پاکستان میں اگلی نسل میں تھیلیسمیا ہونے کے امکانات 6 فیصد بڑھ جاتے ہیں جب کہ ملک میں چھوٹے سر والے بچوں کی شرح پیدائش کافی زیادہ ہے