سماجی کارکن مسرت عزیز کا قتل: ’بھائی نے سوشل میڈیا پر انٹرویو دینے سے منع کیا، مسرت نے کہا یہ ممکن نہیں‘

دونوں کو ایک ساتھ کھانا کھاتا دیکھنے کے بعد ہم سمجھے کہ بہن اور بھائی کے درمیان معاملہ حل ہو گیا ہے لیکن بہن کی ایک بات سُننے کے بعد بھائی کمرے سے باہر نکل گیا اور چند لمحوں بعد جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں پستول تھا جس سے فائر کر کے اس نے بہن کو قتل کر دیا۔‘

یہ کہانی ہے بلوچستان کے علاقے ژوب سے تعلق رکھنے والی خاتون سماجی کارکن مسرت عزیز کے قتل کی جسے بتاتے ہوئے ان کی والدہ منورہ سلطانہ کا کہنا تھا کہ انھیں عمر کے ایک ایسے حصے میں غم سے دوچار کیا گیا جس میں ان کے اندر یہ بوجھ اُٹھانے کی سکت نہیں۔

فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے منورہ سلطانہ نے بتایا کہ ان کی بیٹی ایک سماجی کارکن تھیں جس پر ان کے ایک بیٹے کو اعتراض تھا اور وہ چاہتے تھے کہ بہن اس کام کو ترک کرے اور سوشل میڈیا پر نہ آئے۔

’لیکن میری بیٹی کا جواب یہ تھا کہ مستحق لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کرنا ان کا مشن ہے جس کو وہ چھوڑ نہیں سکتی۔‘

ژوب میں محکمہ سماجی بہبود حکومت بلوچستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر ملک احسان الحق مندوخیل نے بتایا کہ مسرت عزیز ژوب کی ایک معروف متحرک سماجی اور انسانی حقوق کی کارکن تھیں۔

ان کی خدمات کے اعتراف میں محکمے نے ژوب شہر میں حال ہی میں اپنی ایک عمارت ان کے حوالے کی تھی تاکہ وہ خواتین کی بھلائی کے کام کو بہتر انداز سے سرانجام دے سکیں۔

مسرت عزیز کے قتل کا مقدمہ ان کے بھائی اور بھابھی کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

مسرت عزیز کے قتل کا مقدمہ ان کے بھائی اور بھابھی کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

پولیس

اس واقعے کی ایف آئی آر میں کیا لکھا ہے؟

مسرت عزیز کے قتل کا مقدمہ ژوب پولیس کے سب انسپیکٹر روزی محمد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی تین دفعات 302, 109 اور 34 کے تحت مفرور ملزم اور ان کی بیوی کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق ایک گولی مقتولہ کے بازو کے اوپر کے حصے، ایک گولی منھ پر اور دو گولیاں پیٹ میں لگی تھیں۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ واقعے کی شب ملزم نے اپنی بہن کو سوشل میڈیا کے استعمال، سیاسی مصروفیات اور این جی او میں کام کرنے سے روکنے کے لیے ممتاز کے گھر بلایا جہاں مقتولہ کی والدہ، ایک بہن، بھابی اور دوسرا بھائی موجود تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ بات چیت اور کھانا کھانے کے بعد ملزم کی بیوی اپنے پرس کے ساتھ باہر نکلی اور اس کے بعد ملزم بھی فوراً کمرے سے باہر نکل گیا۔

ایف آئی آر کے مطابق دو تین منٹ کے بعد ملزم کی بیوی بغیر پرس کے کمرے میں واپس آئی اور کمرے کے ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ ان کے بیٹھنے کے فوراً بعد ملزم بھی کمرے میں داخل ہوا اور اپنی بہن کے سامنے کھڑے ہو کر ایک دم پستول سے فائرنگ شروع کر دی جس سے مسرت بی بی شدید زخمی ہوئیں۔

زخمی ہونے کے بعد ان کو سول ہسپتال ژوب لے جایا جا رہا تھا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راستے میں ہی فوت ہو گئیں۔

ایف آئی آر کے مطابق ملزم لوگوں کی گھبراہٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اور پستول کے زور پر دھمکاتے ہوئے اپنی بیوی کو لے کرموقع سے فرار ہو گیا۔

پولیس نے اب تک کیا کارروائی کی ہے؟

ژوب پولیس کے سربراہ صبور آغا نے فون پر رابطہ کرنے پر بتایا کہ ایف آئی آر کے اندراج کے لیے مقتولہ کے کسی رشتہ دار کا انتظار نہیں کیا گیا بلکہ فوری طور پر پولیس کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے مقدمات میں جب دونوں طرف ایک ہی خاندان کا نقصان ہو تو پھر خواتین کے معاملے میں خاندان کے لوگ یا تو ایف آئی آر درج نہیں کرواتے یا پھر حقائق تبدیل کر کے دیر کرتے ہیں جس کا اثر کیس پر پڑتا ہے۔

ژوب پولیس کے سربراہ نے بتایا کہ قتل کا مرکزی ملزم خود تو واردات کے بعد فرار ہوا، تاہم ابتدائی تحقیق کے حوالے سے بعض شواہد سامنے آنے کے بعد ان کی بیوی کو مقدمے میں نامزد کر کے گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مرکزی ملزم کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں اور ان کی گرفتاری اور انصاف کی فراہمی کے لیے قانون کے جتنے بھی تقاضے ہیں ان کو پورا کیا جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *