صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کو $680 ملین مالیت کے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دے دی ہے، جس میں جدید بموں اور گائیڈڈ ویپنز کٹس شامل ہیں۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب امریکہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے سفارتی کوششیں کر رہا ہے۔
اسلحہ فروخت کی اس خبر نے انسانی حقوق کے کارکنوں اور بین الاقوامی مبصرین کی تنقید کو جنم دیا ہے، جو امریکہ کی دوہری پالیسی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ایک طرف امریکہ امن مذاکرات کی قیادت کر رہا ہے، جبکہ دوسری طرف وہ اسرائیل کو مزید مسلح کر رہا ہے، جو فلسطینی عوام کے خلاف جاری تنازعے کو بڑھا سکتا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ نے بارہا یہ دعویٰ کیا ہے کہ اسلحہ فروخت کو جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا رہا۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام خطے میں امریکہ کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگاتا ہے، اور اس کے امن قائم کرنے کی کوششوں کی ساکھ کو متاثر کر سکتا ہے۔”
